۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید حیدر عباس رضوی

حوزہ/کورونا وائرس نے دین کی صحیح نشاندہی کرا دی ہے۔ دین صرف علم کا طرفدار ہے جہالت کا دین میں کوئی گزر نہیں ۔آج اگر نماز جمعہ،نماز جماعت سمیت دیگر مذہبی پروگرامز ملتوی کئے گئے تو یہ دین کے مطالبہ کو عملی جامہ پہنانا ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔

حوزہ نیوز ایجنسی| کوئی بھی مہلک مرض عالمی سطح پر وبا ہی ہو یہ ضروری نہیں ۔متعدد ایسے امراض ہیں جو مہلک ہیں لیکن انہیں عالمی پیمانہ پر وبا کا نام نہیں دیا جا سکتا ۔کینسر جیسا مہلک مرض بھی اگر چہ بیحد خطرناک اور جانلیوا ہے لیکن چونکہ ایک سے دوسرے میں سرایت نہیں کرتا لہٰذا اسے وبا کا نام نہیں دیا جاتا ہے۔فرانس کے وزیر صحت نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا :'' جلد ہی یہ کورونا وائرس عالمی سطح پر وبا بن جائے گا''۔

کوروناوائرس(Covid-19)کیونکر اتنا خطرناک ہے اور اس سے قبل کس وبا نے کب کب انسانیت کو خطرہ میں مبتلا کیا ذیل کی سطروں میں قابل ملاحظہ ہے:

طاعون:تاریخ میں ''طاعون'' جیسی بیمار ی کا تذکرہ ملتا ہے۔١٣٣٠ء سے ١٣٥٠ء تک اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد ٧٥ملین افراد تک بیان ہوئی ہے۔مغربی یورپ میں جب یہ بیماری عام ہوئی تو وہاں کی آدھی آبادی لقمۂ اجل بن گئی۔اسی وبا کے سبب پورے یورپ سے ایک تہائی آبادی کا خاتمہ ہوا۔اعداد وشمار کے مطابق اس وبا سے اٹلی،اسپین اور جنوبی فرانس میں اسّی فیصد لوگوں کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔اُس دور میں ایران میں بھی١٣ لوگوں کی موت ہوئی۔''طاعون'' جیسی وبا پہلی بارچھٹی صدی عیسوی میں پھیلی۔چین کے ایک صوبہ سے اس وبا آغاز ہوا جہاں سے یہ وسطی ایشیا میں پہنچا پھر ایران،ترکی اور آخر کار یورپ تک گیا۔

اب تک'' طاعون''جیسی وبا ،تین بار عالمی سطح پر پھیلی جن میں آخری بار ١٨٥٥ء سے ١٨٥٩ء تک کی مدت بیان کی جاتی ہے۔قابل ذکر ہے کہ تینوں مرتبہ اس وبا کا آغاز چین سے ہی ہوا اور یہ پوری دنیا کے اقتصاد اور معیشت پر اثر انداز رہی۔

اسپینی آنفلونزا(غیر اسپینی بیماری):١٩١٨ء سے١٩٢٠ء کے درمیان اس مرض سے دنیا کے تقریباً ٥٠٠ملین افراد متاثر ہوئے ۔٥٠سے١٠٠ملین افراد اس بیماری سے لقمۂ اجل بنے۔بعبارت دیگر اس دور کی ١٣آبادی اس بیماری کے سبب موت سے دچار ہوئی۔اس بیماری میں مرنے والوں کی تعداد پہلی عالمی جنگ میں مرنے والوں سے کہیں زیادہ تھی۔متعدد جگہوں پر اس بیماری کا مرکز  امریکہ بیان ہوا ہے۔کیوں اسے اسپین کے ساتھ جوڑا گیا؟! اس کا سبب یہ کہ اس مرض میں مبتلا ہونے والا پہلا شخص چونکہ اسپین میں مشاہدہ کیا گیا اس لئے اسے اسپین کے نام سے جوڑا گیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جرمنی،فرانس،اٹلی سمیت یورپ کے بعض دیگر ممالک بھی اسپین کے ساتھ ساتھ اس بیماری سے روبرو ہوئے لیکن پہلی جنگ عظیم کے سبب اس کی خبریں تحت الشعاع قرار پائیں ۔اضافہ کرتے چلیں کہ اس بیماری سے ایران بھی متاثر ہوا پہلی جنگ عظیم میں موجود فوجیوں کے ہمراہ یہ بیماری ایران پہنچی ۔ ایرانی دیہاتوں میں مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی ۔ایرانی تقریباً ١١ملین افراد اس بیماری سے لقمۂ اجل بنے۔

وبا المناک بیماری:وبا جیسی بیماری انیسویں صدی میں عالمی سطح پر پھیلی اور پوری دنیا میں اس کے سبب دسیوں ملین افراد موت کے گھاٹ اترے۔اس وبا سے مرنے والوں میں ''جایکوفسکی'' نامی مشہور روسی موسیقیدان بھی تھا۔جو ١٨٩٣ء میں اس وبا کے سبب لقمۂ اجل بنا۔١٨١٧ء سے ١٨٦٠ء تک ہندوستان کے ہی صرف ١٥ملین افراد موت کی آغوش میں پہنچے۔١٨٦٥ء سے ١٩١٧ء تک اس بیماری کے سبب ٢٣ملین افراد لقمۂ اجل بنے۔اسی دور میں روس کے ٢ملین افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ایڈز،بیسیوں صدی کی بیماری:یہ جانلیوا بیماری گذشتہ ٤دہائیوں میں عالمی سطح پر پھیلی ۔پوری دنیا میں اس بیماری کے سبب اب تک ٢٣ملین افراد لقمۂ اجل بنے۔بعض تحقیقات کے مطابق اس بیماری کا مرکز مغربی افریقہ بیان ہوا۔افریقہ کے مرکزی اور شمالی ممالک میں اس بیماری سے کل ٢٥فیصد افراد متاثر ہوئے ہیں ۔جنوبی افریقہ میں حاملہ عورتوں کی ٢٩.١فیصد شرح اس بیماری میںبیان ہوئی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ٢٠٢٥ء کے آخر تک اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد تنہا افریقہ میں ہی ٩٠سے ١٠٠ملین افراد تک پہنچ جائے گی۔

کورونا وائرس،اکیسویں صدی کی عالمی وبا:دن بدن یہ احتمال بڑھتا جا رہا کہ اس نئے وائرس کا دائرہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔اس وبا کا آغاز چین کے ووہان شہر سے ہوا۔اب تک ہزاروں افراد اس وبا سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں ۔آج یہ وائرس  بلا استثناء پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔اس وبا کو نہ ملک وسرحد کی شناخت ہے نہ ہی اسے امیر وغریب اور شہری ودیہاتی میں فرق معلوم ہے۔اس کے سبب سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی گاڑیوں کا نظارہ نہیں ہو رہا۔ہر طرف ایک ہو کا عالم ہے اور ایک مہیب سا سناٹا۔چہل پہل والے علاقوں میں سکوت کی فضا حاکم ہے۔بس اسٹیشن،ریلوے اسٹیشن،ائرپورٹ ہر جگہ سے انسان غائب۔ہم نے اب تک علمی ترقی اور میڈیکل سائنس کے اوپر اٹھتے گراف کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا لیکن آج یہ باور کرنا نہایت آسان ہو گیا کہ واقعی پروردگار نے انسان کو ضعیف خلق فرمایا۔آج پوری دنیا کے ماہرین طب مل کردن رات ایک کر کے اس وائرس سے نجات دلانے کے لئے ویکسین یا دوا نہ بنا سکے۔البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ مغربی ممالک میں کورونا وائرس بر سر اقتدار حکمران جماعت کے لئے کسی چلینج سے کم نہیں ۔مغرب کی دنیا جہاں آج اس جانلیوا وبا سے مقابلے کے لئے علمی تگ ودو میں دنوں رات ایک کئے ہوئے ہے وہیں عالم اسلام اور عربی ممالک نیز مسلم اکثریت علاقوں میں خرافات اور توہمات کا بازار گرم ہے۔ سوشل میڈیا کا جائزہ لیںتو خودآپ کو با آسانی اندازہ ہو جائے گا۔بعض سادہ لوح افراد ان میں ایسے کہ جن کا ماننا ہے کہ اس وائرس سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا یہ فلاں قوم کے لئے ایک الٰہی عذاب کے سوا کچھ نہیں ۔بسا اوقات تنگ نظری کا عالم یہ کہ بعض متعصب افراد ایران کے اسلامی نظام پر مبنی ملک ہونے کے سبب اسے شیعوں کی ناکامی قرار دے رہے ہیں ۔

یہ مان لینا چاہئے کہ کورونا نے دین کی صحیح نشاندہی کرا دی ہے۔دین صرف علم کا طرفدار ہے جہالت کا دین میں کوئی گزر نہیں ۔آج اگر نماز جمعہ،نماز جماعت سمیت دیگر مذہبی پروگرامز ملتوی کئے گئے تو یہ دین کے مطالبہ کو عملی جامہ پہنانا ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ایک طرف عمرہ جیسی عبادت کی وقتی ممانعت،دوسری جانب زیارت عتبات عالیات پر وقتی پابندی اور پوپ کی جانب سے چرچ کے گیٹ کی تالہ بندی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آج ہمیںاپنا دین ومذہب اعماق دل سے تسلیم کرنا ہے۔ ساتھ ہی اپنے عوام سے گزارش کہ دانشوران قوم،مراجع عظام اور میڈیکل ایکسپرٹس کے بتائے زرین اصول زندگانی پر عمل پیرا رہنے کی کوشش کرتے رہئے۔نہ ہی ہمیں نڈر بننا ہے کہ سڑکوں پر بلا وجہ گھومتے نظر آئیں اور نہ ہی اتنا ڈر پیدا کر لینا ہے کہ یہ وبا ہم پر غالب آجائے۔ہمیں کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔

تحریر: مولانا سید حیدر عباس رضوی 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .